حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

واہ کیا جُودُو کرم ہے شہے بطحا تیرا

نہیں" سُنتا ہی نہیں مانگنے والاے تیرا"

،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

سر ہو چوکھٹ پے خم، تاجدارِ حرم
یہ نِکل جائے دم، تاجدارِ حرم
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،عارِفانہ کلام ہے

بیدم مری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دَرّ کے
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جانانہ

،سگِ داتا و غوث و اجمیر و رضا و عطار
مُحمد جُنید احمد عطارِی

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ


عارِفانہ کلام

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ
آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ

کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ

اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا

اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ

دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے
محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ

جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے
ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ

میں ہوش ہوس اپنے اِس بات پے کھو بیٹھا
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ

پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرّا سی ہے
اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ

کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ

جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں
درشن کا تو درشن ہو نظرانے کا نظرَانَہ

بیدم میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ

:کلام
حُضور سیدی آقا سید بیدم شاہ قادرِی وارثِی رحمۃُ اللہ علیہ

:زُبان
اُردُو / ہِندی

اپنے مُرشِد کے لیے تحریر فرمائی۔ ۱۱۹۱

2 comments:

  1. چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
    تیرے دامن میں شھپے چور انوکھا تیرا
    ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
    مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

    مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی
    اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکما تیرا

    ReplyDelete

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ