حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

واہ کیا جُودُو کرم ہے شہے بطحا تیرا

نہیں" سُنتا ہی نہیں مانگنے والاے تیرا"

،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

سر ہو چوکھٹ پے خم، تاجدارِ حرم
یہ نِکل جائے دم، تاجدارِ حرم
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،عارِفانہ کلام ہے

بیدم مری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دَرّ کے
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جانانہ

،سگِ داتا و غوث و اجمیر و رضا و عطار
مُحمد جُنید احمد عطارِی

برون آشہسُوارِ من تعال پیش ازین تاکِی


برون آشہسُوارِ من تعال پیش ازین تاکِی
زحد بگزشت مشتاقِی تجمل پیش ازین خاکِی

اے شہسُوار باہر آ نہ جانے تُجھ سے کب سامنا ہو گا، جامِ شوق چھلک رہا ہے۔ اِس سے زِیادہ برداشت نہیں ہوتِی۔

تا حال مَن ہمیدانِی ومی دانم کہ مِی دانِی
چُو خُودرا دور میکردی تغافل بیش ازین تاکِی

مُجھے معلُوم ہے کہ آپ میرے حال سے واقِف ہیں، تُو نے اپنے آپ کو مُجھ سے دُور رکھا ہُوا ہے، یہ بے رُخِی کب تک چلے گی۔

بطرفِ گُلستان یکرہ در آؤ قدرِ گُل بشکن
کشیدن درد سر چندین زبُلبُل پیش ازین تاکِی

کِسی طرف سے باغ میں آ کر پُھول کی ساکھ توڑ دو، کیونکہ اِس سے زِادہ بُلبُل دردِ سر
برداشت نہیں کر سکتِی۔

اگر میل غزا دارِی بیاؤ قتلِ محے کُن
بکار این چنین نیکو مائِل بیش ازین تاکِی

ترجمہ: اگر ماتم کرنے کا خیال ہے تو پہلے مُحی الدِین کو قتل کر دے، کیونکہ نیکِی پُوچھ پُوچھ کر نہیں کِی جاتِی۔

تشریح }
مزکورہ اشعار میں عاشِق دراصل اپنے آپ کو معشُوق کے زِمّہ لگا دینا چاہتا ہے۔

کلام۔
حُضُور پُرنُور غوثِ اعظم شیخ سید عبدُالقادِر جِیلانِی ڑضِی اللہ عنہُ


زُبان۔
فارِسْی

2 comments:

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ