این کہ سر برتن بودبر دار بودِی کاشکے
دین بدن خاشاک راہِ یار بودِی کاشکے
دین بدن خاشاک راہِ یار بودِی کاشکے
یہ سر جو جِسم پر سلامت ہے کاش یہ سُولِی پر چڑھ جاتا، اور یہ جِسم و جان یار کی گرد ِراہ بن جاتِی۔
تاصبا خاکم نبردی از سرکوئی حبیب
خاک من خشتی ازان دیوار بودِی کاشکے
خاک من خشتی ازان دیوار بودِی کاشکے
اے صُبح کی ہوا میری خاک یار کی گلِی میں کِیوں نہیں لے جاتِی، کاش میری خاک یار کی دیوار میں اینٹ بن کر نصب ہو جاتِی۔
چونتون گاہی میکنی پرسش مریض خولش را
دایما چون دِل تنم بیمار بودِی کاشکے
دایما چون دِل تنم بیمار بودِی کاشکے
کاش اگر تُو نے اپنے مریض کی کبھی عیادَت کرنِی ہوتِی تو میں دائِمی مریض بن کر پڑ جاتا۔
بسکہ بیداد تو افزون مے شود گویند خلق
جورا مِثال تو ہم چون یار بودِی کاشکے
جورا مِثال تو ہم چون یار بودِی کاشکے
مخلُوق کہتِی ہے کہ تیری زیادتِی حد سے گُزر گئی ہے، اے کاش تیری زِیادتِی یارِی میں بدل جاتِی۔
چونتو نتوانی کہ ہمچون گُل جدا کردے زخار
محے دِل افگار تو ان خار بودِی کاشکے
محے دِل افگار تو ان خار بودِی کاشکے
جب تُجھے پُھول سے کانٹا الگ کرنا مُمکِن نہیں۔ اے کاش کہ محی الدین کا دِل پُھول کے ساتھ والا کانٹا ہی بن جاتا۔
مزکورہ اشعار میں وصلِ محبُوب کی آخِری کوشِش کا اِظہار، فنافِی الذات کی منزِل عاشِقِ دیدار معشُوق کا دائمِی مَرض ہوتا ہے، وصلِ محبُوب کے لیے توقع۔
کلام۔
حُضُورِ پُرنُور غوثِ اعظم شیخ سید عبدُالقادِر جِیلانِی ڑضِی اللہ عنہُ
زُبان۔
فارِسْی
No comments:
Post a Comment
کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔
شُکریہ